کاشتکار وں کے مسائل حکومت کی بے حسی                                تحریر؛اختر عباس اختر    سدھار فیصل آباد
اس وقت کماد،مکئی،باجرہ کپاس سمیت کئی دیگر فصلیں پک کر تیار ہو چکی ہیں کسان کو فصل پکنے اور اس پر مناسب قیمت ملنے کی آس ہوتی ہے جس کے لئے وہ کھیتوں میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو کر محنت کرتا ہے مگر جونہی فصل تیار ہوتی سرمایہ کار اس کے اونے پونے ریٹ لگا کر اس سے اس کی فصل خرید کرتا ہے چند ماہ ذخیرہ کرنے کے بعد آوٹ سیزن میں وہی جنس ڈبل ریٹ میں فروخت کر دیتا ہے جس سے وہ گھر بیٹھے کسان سے کئی گنا زیادہ منافع کما لیتا ہے مکئی کی اس وقت قیمت 1200روپے من مقرر کی جب چند سال قبل اس کی قیمت دوہزار پلس تھی یونہی کماد کی فصل کا ریٹ چار سو روپے من مقرر کیا گیا اگر کماد کی فصل کی محنت کا اندازہ لگایا جائے قیمت نہایت ہی کم ہے کماد کی فصل بہت زیادہ محنت اور وقت طلب فصل ہے جس کے لئے کئی ماہ اور زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے کسان ایک سال تک اس کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کی کٹائی بہت دقت امیز ہے اس کے بعد اسے ٹرالر پر لوڈنگ کے لئے مزدوری اور پھر شوگر ملز کے ساتھ باری کا انتظار کئی ایک کھٹن مرحلے ہیں جن سے کسان کو گذرنا پڑتا ہے فصل کی کٹائی سے لے کر مل میں ان لوڈنگ تک کسان کو مختلف قسم کی مزدوری ادا کرنی پڑتی ہے کئی کئی دن ٹرالر شوگر ملز کے گیٹ کے سامنے انتطار میں کھڑے رہتے ہیں اور ٹرالر کا کرایہ کسان کے ذمہ ہوتا ہے اس کے بعد ملز مالکان کسان کو ایک ووچر یا چیک تھما دیتے ہیں جس کے بعد کسان رقم کے حصول کے دربدر ہوتے رہتے ہیں کیسا المیہ ہے چار سو روپے گنے کی قیمت ہے جب کہ گنے سے رس نکلالنے کے بعد چورا کی قیمت ساڑھے چار سو روپے فی من ہے یہی دیگر تیار فصلوں کی قیمتوں کے ساتھ ہ رہا ہے فیصل آباد سمیت دیگر اضلاع میں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے کسان مشکلات کا شکار ہے وہ آج بھی روائتی فصلیں اگانے پر مجبور ہے وہ سہولیات نہ ملنے پر قدیدیمی طریقہ ہائے کاشت اپناتے ہوئے مٹی میں مٹی ہورہا ہے اور ہر آنے والی حکومت کسان خوشحال بنانے کے دعوے کرتے ہوئے اپنا اقتدار انجوائے کرتی ہوئی رخصت ہو جاتی ہے سابق وزیر اعظم پاکستان چوہدری شہباز شریف نے اسٹبلمنٹ کے ساتھ مل کر شعبہ زراعات کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جس کے بعد حکومت کی جانب سے میٹنگ عمل میں لائی گئیں لوگوں میں امید کی کرن جاگی کہ شائد اب حکومت زرعات کو ترقی دینے میں سنجیدہ ہے اور کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر ایسا نہ ہو سکا اور زراعات پر سولہ ماہ کی حکومت میں سوائے میٹنگ کے کوئی عملی اقدمام  نہ ہو سکا 
 معروف کاروباری شخصیت مثالی زمیدار چوہدری یٰسین کسانہ کیا انہوں نے کہا سیزن سے قبل ہی اگر ان تمام اجناس کے پنجاب حکومت ریٹ مقرر کرے اور اس کی خیریداری سرکاری نرخوں پر یقینی بنائے تو نہ صرف کسان خوشحال ہو گا ملک میں زرعات کاشعبہ بھی ترقی کرے گا حکومت پنجاب کسان کی خوشحالی کے لئے بیج،بجلی،ڈیزل و کھاد کے نرخوں پر سبسڈی دے تا کہ کسان کروڑوں انسانوں کو سستی اور معاری اجناس فراہم کر سکیں حکو متیں صرف دعوے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں عمل کرتی نظر نہیں آتیں جس سے مسائل جونہی رہتے ہیں پاکستان زرعی ملک ہونے کے باجود زرعی مشکلات کا شکار ہے ہم چینی گندم،پیاز سبزیاں آج بھی باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ حکومتی عدم توجہی اور سہلولیات کا نہ ہونا ہے،اگر ہم کسان کو بجلی سستی فراہم کریں مٹی اور پانی کے ٹیسٹ کر کے دیں اوربیج،کھاد سپرے سستے ریٹ پر مہیا کریں اس پر سبسڈی دیں تو کسان کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں پاکستان میں چاروں موسم موجود ہیں ہر طرح کی جنس اگانے کے لئے یہ مٹی تیار ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر محنت کی جائے پاکستان کو زرعی ملک سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے اپنی ضروریات کے مطابق اجناس کی کاشت کو یقینی بنایا جائے تو ہم خوشحال ہو سکتے ہیں مگر ہم ت چینی،گندم،پیاز،ادرک،ٹماٹر تک ہمسایہ ممالک سے منگواتے ہیں صرف اس لئے کہ ہم محنت سے عاری قوم ہیں 

You Might Also Like

Author