الیکشن کی آمد
الیکشن کی آمد اور بیان بازی کی سیاست،،،، اختر عباس اختر سدھار فیصل آباد
الیکشن کا اعلان کیا جا چکا ہے سیاسی پارٹیاں بیان بازی پر آ چکی ہے ٹاک شو میں ایک دوسرے پر بیان بازی ار ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں ن لیگ اور پی پی پی اپنا اپنا وزیر اعظم بنانے کا دعوے کر رہی ہیں جو ایک المیہ ہے اور الیکشن مشکوک ہونے کی جانب اشارہ ہے ابھی تو الیکشن کا بگل بجا ہے ابھی کمپین اسٹارٹ ہو گی سیاسی جماعتوں کے نمائندے عوام کی دہلیز پر ووٹ مانگنے پہنچیں گے ان کے مسائل سنتے ہوئے ان کے حل کی یقینی دہانی کروائیں گے اوراپنا منشور پیش کریں گے اس کے بعد الیکشن کا میدان سجے گا ووٹر کا اعتماد پہلا مرحلا ہو گا جس پر سب کو بہت زیادہ محنت درکار ہو گی اس سے اگلا مرحلا ہو گا ووٹر دھڑوں پر پہرا دینا سیاسی گروپ آخری رات تک ادھر سے ادھر ہوتے نظر آئیں گے اس کے بعد الیکشن کا دن بہت اہمیت کا حامل ہوگا اس دن سیاسی کارکن ووٹر کو کس طرح اور کس حد تک گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور ووٹ کاسٹ کرواتے ہیں کیونکہ اس دن ایک ایک ووٹ قیمتی ہو گا شہر سے باہر بکھرے ووٹ اکھٹے کرنا کیمپ لگانا اور رزلٹ تک ووٹر پر پہرہ دینا سب بہت ہی اہمیت کے حامل کام ہیں الیکشن ٹائم کے بعد سب سے اہم اور مشکل مرحلہ شروع ہو گا جب ایجنٹ کا امتحان ہو گا انہیں اپنے ووٹ پر پہرہ دینا ہوگا رزلٹ آنے تک یہ سب نہایت اہم مرحلے ہونگے جن سے گزر کر کوئی سیاسی جماعت پولنگ رزلٹ تک پہنچے گی تب جا کے کسی کی جیت کا اعلان ہوگا ابھی میدان نہیں سجا ابھی گراوند تیار ہوا ہے نہ کھلاڑیوں کا اعلان ہوا ہے ابھی تو کھلاڑی شارٹ لسٹ بھی نہیں کئے گئے ابھی میدان میں کھلاڑی ہیں نہ تماشائی تو جیت کے دعوے کیسے نگران حکومت سمیت الیکشن کمیشن کو ان بیانات پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے پابندی عائد کرنا چاہئے ورنہ الیکشن کے بعد یہ بیان بازی کی گونج تھم نہ سکے گی کوئی الیکشن کی شفافیت کو تسلیم نہیں کرے گا نگران حکومت سب سے پہلے الیکشن کے صاف شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے اقدمات کرے،ملک میں سیاسی استحکام کے لئے صاف شفاف الیکشن ناگزیر ہیں جموریت سے عاری جموری ملک میں جموریت کی بقا کے لئے جموری طریقے سے ہی اقتدار میں آنے والے عوامی نمائندے کہلائیں گے منتخب نمائندے اپنے حلقہ کی عوام کے مسائل کے حل کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو پاکستان ان مسائل کا شکار کبھی نہ ہو سیاسی جماعتوں کے پاس الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں ہے ایک دوسرے پر الزمات لگانا ہی سیاسی منشور ٹھہرا ہے چور دروازے سے برسر اقدار آنے کی روایت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی سرمائی دار اپنی جمع پونجی اپنا بزنس بیرون ممالک جبکہ حکومت کرنے وہ پاکستان تشریف لے آتے ہیں سیاست کو عبادت کا نام دینے والوں کو سیاست کے معنی بھی یاد نہیں ہیں شاید لوگ کے مسائل سے ماروا نام نہاد عوامی نمائندے ہی ملک کی تنزلی کی اصل وجہ ہیں جنہوں نے 76سالوں میں ملک پر سیاست کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا یہ لوگ سیاست کو کاروبار سمجھ کر کرتے ہیں اور منافع کمانے کے بعد اپنی جمع پونجی سمیت اپنے آبائی ممالک میں تشریف لے جاتے ہیں ملک غریب سے غریب اور یہ امیر سے امیر ہوتے جا رہے ہیں ملکی اثاثوں میں کمی اور ان کے اثاثے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں الیکشن قریب آتے ہی ٹکٹ اور ووٹر کی خریدو فروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے بولیاں لگتی ہیں صبح سویرے ایک نجی ٹی وی چینل دیکھ رہا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی کی ن لیگ نے ایم این اے کی ٹکٹ کے لئے چار سے چھ کروڑ کی فیس مقرر کی ہے سادہ ایم این اے چار کروڑ کا جبکہ سپیشل ایم این اے چھ کروڑ جمع کروائے گا اور یوں ن لیگی قیادت کھربوں روپے جمع کر ے گی یعنی اشتہارات اور دیگر مد میں خرچ کئے گئے پیسے سود سمیت واپس لیں گے یہ مسلہ کسی ایک پارٹی کا نہیں ہے سیاسی پارٹیاں سب ہی اسی ڈگر پر چل رہی ہیں اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں کچھ کم زیادہ ہو سکتا ہے ایسے میں جموریت کا نعرہ لگانا فضول ہے ہماری سیاسی پارٹیوں کے پاس کوئی منشوو نہیں ہے ملک کو معیشیت سے نکالنے کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے زراعات سمیت چھوٹی انڈسٹری کو فروغ دیتے ہوئے سالانہ اربوں روپے پاکستان لا سکتے ہیں ہم سالانہ اربوں روپے صرف خام آئل پر خرچ کرتے ہیں اگر کوئی سیاسی جماعت یا منتخب حکومت جس میں ایسے افراد شامل ہوں جو گراس لیول پر مسائل کو سمجھتے ہوں جو زمیدار ہوں اور چھوٹی انڈسٹری ہولڈر جو ہمیں روز گار کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر سالانہ دے سکتے ہیں ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی جانب توجہ دی جائے مگر یہاں المیہ یہ ہے سیاسی جماعتوں کے عوام کے مسائل کی کسی کو خبر نہیں لوگ بھوکے مررہے ہیں غریب خاندانوں کے پاس دو وقت کی روٹی دستیاب نہیں ہے بے روز گاری اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے
سیاسی پارٹیوں کے دیگر پارٹیوں سے الحاق کی شروعات ہو چکی ہیں ن لیگ نے پہل کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہاں میں بتاتا چلوں کہ پی ڈی ایم شروعات ہو چکی ہے بہت سی سیاسی جماعتوں کا الحاق متوقع ہے اقتدار کے لئے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کیا جائے گا سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اپنے منشور بنانا ہونگے جس میں عوام کی اصلاع شامل ہو عوامی مسائل پر توجہ دی جائے لوگوں کے مسائل کا حل شامل ہو ملک کو سیاسی و معاشی مشکلات سے نکالنے کا حل موجود ہو اور اس کے بعد سب کو مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے اختلافات کو بھلا کر انتقامی سیاست کو دفن کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا سوچنا ہو گا ملک بقا کو مقدم سمجھنا ہو گا بہت ہو گیا اتنے سالوں سے ہم ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہو تے جا رہے ہیں دنیا کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے اور ہم پانچ سال انتخابات میں میں دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں کوئی منتخب حکومت اپنا سیاسی ٹینیور پورا نہیں کر پاتی اپوزیشن منتخب حکومت کو کام نہیں کرنے دیتی ہر منتخب کے اقتدار ختم ہوتے ہی اس کے وزیراعظم کو جیل جانا پڑتا ہے آنے والی حکومت اس پر کرپشن کے الزمات لگاتے ہوئے سارا ملبہ سابقہ حکومت پہ ڈال دیتی ہے اور پانچ سال پچھلی حکومت کو برا بھلا کہتے ہوئے گذار دئے جاتے ہیں کئی دیہائیوں سے پاکستانی قوم کے ساتھ یہی سب کچھ ہو رہا خدارا اپنے ملک کے لئے اپنا منشور بدلئے اپنی سوچ بدلئے دنیا بہت آگے جا چکی ہے اور ہم کشکول ہاتھوں میں تھامے ملکوں ملکوں چند سو ارب ڈالر کی بھیک مانگ رہے ہیں قصور قوم کا نہیں حکمرانوں کا ہے نااہل سیاسی جماعتوں کا ہے جنہوں نے ملک کا سوچا نہیں سیاسی پارٹیاں سرمایہ دار کو ٹکٹ دیتے ہیں سیاسی ورکر اور نظریاتی کارکنان اس سے محروم رہتے ہیں مروثی سیاست آج بھی پاکستان جموریت کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے قابل لوگ آج بھی دھکے کھانے پر مجبور ہیں جبکہ نااہل لوگ اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں جن کے پاس کوئی منشور ہے نہ ملکی مسائل کا کوئی حل الیکشن کی آمد ہے ووٹر کو اپنی قیادت کے انتخاب کرتے ہوئے سوچنا ہو گا کئی بار سوچنا ہو گا ورنہ اگلے پانچ سال بھی ہم اپنے ہی منتخب نمائندے کو برا بھلا کہتے ہوئے گذار دیں گے
Author
Sudhar
15 years of experience in the field of journalism. Have built a reputation for delivering insightful, accurate, and engaging news coverage on a wide range of topics.