پاکستان آئی ایم ایف کے درپر؟؟؟؟؟                            اختر عباس اختر  سدھار فیصل آباد
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں چار موسم ہیں جہاں اللہ تعالی کی ہر نعمت موجود ہے دنیا میں خوبصورتی کی آپ مثال آپ ہے جہاں چار موسم پانچ دریا موجود ہیں جہاں پہاڑ بھی ہیں اور میدان بھی موجود ہیں جہاں صحرا بھی ہیں اور سمندر بھی جہاں معدنیات کے ذخائر بھی موجود ہیں اور جہاں زراعت کے لئے تمام موسم بھی دنیا کا سب سے بہترین نہری نظام بھی موجود ہے مگر اس کے اس کے باجود ہم مقروض ہیں ہم مسلسل آئی ایم ایف کے در پر لائن میں لگے نظر آتے ہیں آخر وجوہات کیا ہیں ہمارے حکمران قوم کو ا س سے نجات دلانا ہی نہیں چاہتے ہماری سیاسی پارٹیاں ایسا ہر گرز نہیں چاہتی کہ قوم ترقی کرے اور ملک خوشحال ہو جائے اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کی سیاسی دوکانداری ختم ہو جائے گی ان کے کاروبار تباہ ہو جائیں گے اور کوئی بھی اپنا کاروبار تباہ کرنا پسند نہیں کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور میں ملک کی ترقی و خوشحالی شامل ہی نہیں ہوتی ہے ان کے پاس کوئی پلان یا روڈ میپ ہی نہیں ہوتا جس پر عمل کرتے ہوئے ملک کو خوشحال بنا سکیں یوں آئی ایم سے قرض لیتے ہیں اپنے کاربار کرتے ہیں اس کا منافع بیرون ملک منتقل کرتے ہیں اور بعد ازاں اپنی مل فیکٹریوں میں آگ لگا دی جاتی ہے جسے حادثہ کا نام دیتے ہوئے ملکی اداروں سے قرض معاف کرا کے اپنے آپ کو محفوظ جبکہ ملک کو غیر محفوظ بنایا جاتا ہے اور یہ کئی دیہائیوں سے ہوتا آ رہا ہے یوں ہمیں قرض کی قسط واپس لینے کے لئے ایک بار پھر قرض لینا پڑتا ہے اور ایسے میں منتخب حکومت کے پانچ سال مکمل ہو جاتے ہیں ہیں پاکستان میں موجود سیاسی پارٹیوں کے اکثر نمائندوں کے اثاثہ جات اور کاروبار بیرون ملک ہیں ان کی رہائش گاہیں اور اولاد تک بیرون ملک میں مقیم ہیں بلکہ وہاں کے شہری ہیں وہاں کے آئین و قانون کو فالو کر تے ہیں مگر پاکستان آتے سب بھول جاتے ہیں یہاں کے قانون سے خود کو بالا تر سمجھتے ہیں اور آئین و قانون کو مذاق بنایا جاتا ہے امیر کے لئے الگ اور غریب کے لئے الگ قانون کا پر عمل پیرا طبقہ ملک کے مسائل کا سبب ہے المیہ ہے کہ دو دیہائیوں سے ملک کے مسائل پر کوئی بات کی گئی نہ سیاسی پارٹیا ں مل بیٹھ کر اس کا حل نکال سکیں سیاسی پارٹیاں جب بھی بیٹھتی ہیں اپنے مطلب اور اپنے مفاد پر ہی مل کر بیٹھتی ہیں ملک و قوم کے لئے یہ کبھی اکھٹی ہو ہی نہیں سکتی ہیں کسی بھی جموری ملک میں ہمیشہ اپوزیشن کا اکردار اہم ہوتا ہے اپوزیشن ہی بر سر اقتدار پارٹی سے کام کرواتی ہے مطلب اقتدار پر براجماں پارٹی کو اپوزیشن کی شدید تنقید و مزاہمت کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور اسی ڈر سے وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے اپنی جدو جہد جا ری رکھتے ہیں اور عوامی منصوبے بنانے ہوئے عوام کی فلاع بہود پر کام کرتے ہیں مگر یہاں سب کچھ اس کے مختلف ہے یہاں بر سر اقتدار پارٹی اپوزیشن کے پر مقدمات بناتی ہے اسے جیلوں میں میں ڈالتی ہے اور پھر نام نہاد اپوزیشن کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹے جاتے ہیں یوں ہی مدت اقتدار اختتام پذیر ہو جاتی ہے اور پھر پانچ سال بعد ایک نئے سیاسی نعرے کے ساتھ عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہی ہمارے ساتھ کئی دہائیوں سے ہو رہا ہے سیاسی پارٹیاں عوام کے مسائل سے بے خبر ہیں ان کے منشور میں عوامی مسائل موجود نہیں ہیں نہ انہیں عوام مسائل سے کوئی غرض ہے یہ جموریت کے نام سے بھی ماورا ہیں تو ایسے میں پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے کیسے قرضوں کی دلدل سے نکل سکتا ہے جن کے پاس کوئی اکانومی کا پلان موجود نہیں ہے نہ معیشت پر ان کا کوئی پلان ہے یہ ملک کے نام پر قرض حاصل کرتے ہیں عوام کو نظر انذاز کرتے ہوئے قرض کی رقم ہڑپ کرتے ہیں اور اگلے سال پھر اقتدار کے خواب دیکھنے شروع کر دیتے ہیں ایک سیاسی پارٹی اپنے باو جی کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کے دعوے کر رہی ہے تو دو سری جماعت بلاول کو وزیر اعظم بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائے عوام کو ایک مرتبہ پھر روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنانے کی کوشش کرنے میں مصروف ہے مولانا صاحب ایک پر صدر مملکت بننے کی آرزورکھتے ہیں سیاسی جو ڑ توڑ عروج پر ہیں ن لیب ایم کیو ایم،ق  لیگ کے بعد نیو سیاسی جماعت آئی پی پی کے سربراہ جہانگیر ترین سے میل ملاپ بڑھا رہی ہے اور مزے کی بات یہ کہ پہلی سیاسی جماعت ہے جو ووٹر پاس جانے کی بجائے سیاسی جماعتوں کے پاس جا رہی ہے الیکشن سے قبل ہی سیٹ اجیسٹ منٹ کی جا رہی ہے حالنکہ انہیں عوام کے پاس جانا چاہئے ن لیگ لاہوں جلسہ کے بعد کو ئی بڑا جلسہ بلکہ کوئی بڑا سیاسی اکٹھ یا سیاسی میٹنگ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے کوئی کارنر میٹنگ بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے پنجاب میں کروائے گئے تمام سروے ان پارٹیوں کے خلاف ہیں اور اس کے باوجود یہ عوام کے پاس جانے کی بجائے سیاسی اتحاد بنانے میں مصروف ہیں سوچا جائے تو یہ عوام کے لئے ایک المیہ ہے کہ ان کے منشور میں عوام ہی نہیں ہیں جموریت کے نام پر ووٹ لینے والے جمور کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں نہ ہی انہیں جموریت یا جمور کے حقوق کا ادراک ہے تو ایسے میں عوام کے مسائل کا حل ممکن ہی نہیں ہے ہم کئی دہائیوں سے مقروض سے مقروض ہو تے جا رہے قرض کا بوجھ ہے کہ کم ہونے کی بجائے ہر سال کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے مگر اس کے لئے کوئی پلان نہیں کیا جاتا ہمارے پاس ایک بھی ایسا وزیر خزانہ نہیں جو معیشت کی ڈوبٹی کشتی کو اس بھنور سے نکال سکے سیاسی پارٹیوں کو چاہئے نوجان نسل کو آئی کے شعبے کی جانب لاتے ہوئے نا صرف ان کو بے روز گاری سے نجات دلائی جائے اس کے ساتھ ملکی معشیت کوسہارا دینے کے اقدمات کئے جائیں چھوٹی انڈسٹری کو ریلیف دینے کے لئے پلان دیا جائے ملکی اداروں کو بحران سے نکلانے کے لئے روڈ میپ دیا جائے زراعت کی حالت ذار پر اپنا منشور واضع کیا جائے لاکھوں بے روز گار کو روز گار کی فراہمی ملکی قرضوں سے نجات اکسپورٹ میں آضافہ پر پاکستانی شہریوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے الیکشن کمپین چلائی جائے تاکہ لوگوں کو کوئی امید کی کرن نظر آئے ایسے نوجوان جو ہر ماہ ہزاروں کی تعداد میں ملک سے باہر جانے پر مجبور ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں ہیں انہیں اپنا مستقل تاریک نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپے اور اپنے بچوں کے مستقل کے لئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں ہمارے سیاسی نمائندے اس بات کو ذہن نشین کرتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کا انتخاب کریں اور منتخب ہونے کے بعد ملک کی فلاح و بہود کے لئے مخلص ہو کر کام کریں،

You Might Also Like

Author