تفصیلین اے 100کی موجودہ صورتحال؟                                         اختر عباس اختر  سدھار فیصل آباد

الیکشن کی آمد آمد ہے سیاسی جماعتیں یعنی پاکستام مسلم لیگ ن بھر پور تیاریوں میں مصروف ہیں  مطلب صرف وہی میدان میں نظر آرہی ہے، اس کے باوجود وہ نظر نہیں آ رہی،کاغذات نامزدگی کے بعد کاغذات کی جانچ پڑتال کا مرحلہ تقریبا مکمل ہو چکا ہے پاکستان بھر کے دیگر مقبول راہنماوں کی طرح راہنما پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ کے امیدوار سابق وفاقی داخلہ رانا ثنا اللہ کے مد مقابل امیدوار ڈاکٹر نثار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے ہیں جبکہ ان کی شریک حیات نے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے گئے جس سے حلقہ کی صورتحال دلچسپ ہو چکی ہے ڈاکٹر نثار دیگر پی ٹی آئی راہنماوں کی طرح اپیل میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جب آپ کی نظروں سے یہ تحریر گزرے گی تب تک وہ اپیل کر چکے ہونگے اور انہیں یقین ہے کہ ان سمیت دیگر راہنماوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کی جو سازش ہوئی ہے عدالت کے معزز ججز اسے ناکام بناتے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیں گے اس کے باوجود اگر انہیں الیکشن کی اجازت نہیں دی جاتی تو ان کی بیگم اور چوہدری محمد الیاس جٹ کی دختر الیکشن میں حصہ لیں اگر چوہدری محمد الیاس جٹ کی بیٹی الیکشن میں حصہ لیتی ہے تو بہت سے ناراض ووٹر جو ڈاکٹر نثار سے ناراض ہے وہ ایک بار پھر چوہدری الیاس گروپ کے ساتھ ملتے ہوئے انہیں اپنا ووٹ دینے پر مجبور ہونگے کیونکہ چوہدری الیاس جٹ اور چوہدری طالب جٹ دو مین سیاسی دھڑے ہیں جو حلقہ کی سیاست میں اہم کرادر ادا کرتے ہیں چوہدری الیاس جٹ خود ایم این اے بنے اور پر گریجوایشن کی شرط عائد ہونے پر سیاست سے دستبردار ہوتے ہوئے اپنے داماد ڈاکٹر نثار احمد کو سیاست میں لے آئے اور انہیں دو بار ایم این اے بنایا ڈاکٹر نثار اب تک پانچ بار الیکشن میں حصہ لے چکے  ہیں وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے ق لیگ اور پھر ن لیگ سے ہوتے ہوئے اب پاکستان تھریک انساف کا حصہ ہیں جو 2013 میں ایم این اے منتخب ہوئے اور پھر 2018کے انتخابات سے قبل ن لیگ کو خیر باد کہتے ہوئے پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے حلقہ میں مضبوط امیدار ہونے پر ن لیگ نے سر جوڑ لئے اور ان کے مقابلے میں اس وقت کے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کو ان کے مقابلے میں میدان میں اتارا گیا جنہوں بہت کم مارجن سے ڈاکٹر نثار احمد کو شکست دی اور ایم این اے منتخب ہو کر وفاقی وزیر داخلہ بن گئے ان الیکشن پر بھی بہت سی سیاسی سماجی تنظیموں سمیت ووٹر کی جانب سے بھی انگلیاں اٹھائی گئیں مگر،حلقہ کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی اس وقت آئی جب چوہدری عبدالرحمن بندیشہ کی وفات کے بعد ان کی ہمشیرہ نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور مخالفین کو للکارنا شروع کر دیا وہ شوشل میڈیا پر مخالفین کو للکارتے ہوئے نظر آئیں انہوں نے سیاسی میدان میں اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور باقائیدہ سیاست کا آغاز کر دیا وہ پہلے پہلے آزاد حیثیت سے اپنی سیاسی کمپین کرتی ہوئی نظر آئیں بعد ازاں انہوں شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی سے ملاقات میں پی پی پی میں باقائیدہ شمولیت اختیار کرتے ہوئے این سے سو  سے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے ٹکٹ کے حصول کے لئے کوشیش تیز کر دیں یوں این اے 100میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو چکی ہے دو خواتین کا مقابلہ سابق وزیر داخلہ سے ہونے جا رہا ہے رانا ثنا اللہ کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے اور وہ ایک مضبوط ترین امیدوار ہیں وہ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر بھی ہیں اور ایک بڑی سیاسی شخصیت ہے اور ان کی کامیابی کے پیچھے دونوں ایم پی اے کا ہاتھ ہے پی پی 108سے میاں اجمل آصف جو چار بار کے ایم پی اے ہیں جن کا تعلق حلقہ سے ہے اور وہ ایک مضبوط ترین امیداور ہیں  انہیں سدا بہار جبکہ پی پی 109سے ظفر اقبال ناگرہ پاکستان مسلم لیگ ن کے مضبوط امیدوار ہے اور یہی رانا ثنا اللہ کی کامیابی کی بنیادی وجہ ہیں ان کے ہوتے ہوئے رانا ثنا اللہ کو ہرانا ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے مسلم لیگی نمائندوں میں یہ بات اہم ہے کہ وہ علاقایہ سیاسی دھڑوں سے رابطہ رکھتے ہیں گراس لیول پر لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں یہی ان کی کامیابی کا راز ہے اور یہ ایم این اے رانا ثناللہ کی کامیابی زینہ ہیں ایم اے کے حلقہ میں ایک سو سے زائد دیہات شامل ہے جن میں 70%علاقہ دیہات پر مشتمل ہے حلقہ میں سب سے زیادہ آبادی والے قصبوں میں پینسرہ،سدھار،دھاندرہ،امین پور شامل ہیں

You Might Also Like

Author